جنسی خواہش اور اسلام


جنسی خواہش اور اسلام

(یہ پوسٹ شادی شُدہ لوگ ہی پڑھیں)

حضورﷺ کی اُمت کو قرآن و احادیث کے مطابق’’جنسی تعلقات‘‘ کے متعلق شعور دینا ہے کیونکہ اس وقت ہماری اولادیں بالغ ہونے سے پہلے گندی فلمیں، گندی تصویریں،عورت اور مرد کا آپس میں پیار کرنے ، مُنہ چومنے، گلے لگانے کے جذباتی مناظردیکھ رہی ہیں اور ان جذباتی گندے مناظر کو دیکھ کراُن کے اندر جسمانی ہوس کی آگ بھڑک رہی ہے۔ اس دور میں لڑکا اور لڑکی کا،لڑکی لڑکی کے ساتھ، لڑکا لڑکے کے ساتھ زنا اور مُشت زنی کرکے دل بہلا رہے ہیں۔

*👈🏻 سوال:* معاشرے میں ’’جنسی تعلقات‘‘ پرکتابیں نہیں لکھی جاتیں لیکن ’’انٹرنیٹ‘‘ پر اس کے متعلق ’’مسلمان‘‘ بہت زیادہ سوال کررہے ہیں۔ اس کتاب میں جنسی تعلقات پر’’اصولوں‘‘ کے مطابق لکھا ہے تاکہ اگر میاں غلطی کرے تو بیوی سمجھائے اور بڑے غلطی کریں تو چھوٹے سمجھائیں۔

*بچوں کی تربیت*

* اپنی اولادوں کو چھوٹی سی عُمر میں اسکول ، مدرسہ یا کسی بھی کام پر ڈالنا ہوتواُن کو سمجھائیں کہ اے میرے بیٹے! یاد رکھنا کسی نوجوان لڑکے،اُستاد، مولوی،دوست کو اپنا منہ اور رخسار نہیں چومنے دینا۔

* اے میرے بیٹے !لڑکے اور لڑکی کی اگلی اور پچھلی شرم گاہ (پیشاب اور پاخانے کا مقام)اور لڑکی کیلئے اُس کے سینے کے اُبھار جسے پستان کہتے ہیں، یہ سب نازک مقام (private parts) ہیں اورآپس میں بھی ان کا دیکھنا اور دِکھانا جائز نہیں ۔اسلئے اے میرے بیٹے تمہارے جسم کے مخصوص حصوں پرکوئی ہاتھ پھیرے یا کچھ بھی کرے تو اپنے والدین کو بتانے میں شرم نہیں کرنی اور کسی کو ایسا کرنے بھی نہیں دینا۔

* اس دور میں والدین کو غریبی کی وجہ سے اپنے بچے فیکٹری، کارخانے، دُکان پر’’ کام‘‘ سیکھنے کیلئے ڈالنے پڑتے ہیں تو خاص طور پر چھوٹے بچے جن کی داڑھی نہیں آئی ہوتی اُن پر خاص رنگ ہوتا ہے اور ان میں عورت کی طرح شہوانی کشش بھی ہوتی ہے۔ بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات بہت زیادہ ہیں کیونکہ بچہ آسان’’ شکار‘‘ ہوتا ہے اور اپنے والدین کو بتا بھی نہیں سکتا، اسلئے والدین کا اپنے بچوں کی تربیت کرنا بہت ضروری ہے۔یہ واقعات اکٹھے رہنے والے خاندانوں میں بہت زیادہ ہیں۔

حدیث پاک کا مفہوم ہے کہ ایک بھیڑیا بھیڑوں میں اتنا خطرناک نہیں ہوتا جتنا ایک نوجوان بچوں میں خطرناک ہوتا ہے۔اسلئے اپنے بچوں کی تربیت کے ساتھ ساتھ ان پر کڑی نظر بھی رکھنی چاہئے۔

* حدیث پاک کے مطابق دس سال یا سمجھدار بچے کے لئے علیحدہ کمرہ ہو کیونکہ میاں بیوی کا آپس میں جسمانی پیار کرنے کاارادہ کسی وقت بھی ہو سکتا ہے۔ہر ایک کیلئے علیحدہ کمرہ ممکن نہ ہو تو میاں بیوی کو ’’جنسی خواہش‘‘پوری کرنے کے وقت میں احتیاط کرنا پڑے گی۔ 

*نوجوان اولاد کوماحول کے مطابق نصیحت*

1 ۔  اس دُنیا میں ماحول گندہ ہے اسلئے بہت سے نوجوان ایک دوسرے کی شرم گاہ دیکھتے ہیں،دوسروں کونفس یا عضو تناسل کو بڑا کرنے کا مشورہ دیتے ہیں،یہ بھی کہتے ہیں کہ لڑکی کو اس طرح کے چھوٹے عضوتناسل پسند نہیں ہوتے اور اُن کی خواہش پوری نہیں ہوتی، پھر کوئی تیل(oil) ، کریم(cream) یا کسی حکیم کے پاس جانے کا مشورہ دیں گے لیکن اے میرے بیٹے اپنی شرم گاہ کسی کو نہیں دکھانی اور نہ ہی کسی کے ایسے مشورے ماننے ہیں بلکہ اپنے قریبی سمجھدار رشتے دار (باپ، چچا، تایا) سے پوچھنا اور سمجھنا ہے اور والدین بھی جوان ہوتے بچے کو ساتھ ساتھ سمجھائیں۔

2 ۔  کبھی بھی اکیلے کمرے میں نہیں رہنا، کبھی گندی فلمیں نہیں دیکھنا، کبھی لڑکی کی طرف گندی نظر سے نہیں دیکھنا کیونکہ تمہاری اپنی بھی بہنیں اور والدہ گھر میں موجود ہیں۔ اگر تمہاری نظر پاک صاف رہی تو اللہ کریم تمہاری عبادت میں حلاوت، شوق اور جذبہ عطا فرمائے گا۔

3۔  کبھی بھی کسی لڑکی سے یارانہ یا دوستانہ نہیں کرنا حالانکہ آج کا میڈیا لڑکے اورلڑکی کو نکاح کے بغیر’’محبت‘‘ کرنے کا درس دے رہا ہے لیکن اگر زندگی میں کہیں کام یا مجبوری کے وقت میں اکٹھا ہونا بھی پڑ جائے تو صرف حد بندی میں رہ کر ایک دوسرے کے ساتھ کام کرنا ہے۔ ساری زندگی اپنی توجہ صرف اللہ کریم کی طرف رکھنی ہے اور کسی لڑکی سے غلط کاری نہیں کرنی، اگر کوئی خوبصورت لڑکی تمہیں خود بھی گناہ کی دعوت دے توکہنا کہ مجھے اس کام کا شوق نہیں ۔ اس گناہ سے بچنے پر اللہ کریم تم کو حشر کے روز عرش کے سائے میں رکھے گا جب کوئی سایہ نصیب نہیں ہو گا۔ 

4۔ مجھے فکر ہے کہ میرا بیٹا کہیں غلط راستہ اختیار نہ کرے، اس لئے مشورہ دیتا ہوں کہ اپنی شرم گاہ کو اپنے ہاتھ میں لے کر تنہائی میں اس طرح نہیں کھیلنا کہ ’’منی‘‘ نکل آئے کیونکہ اس عمل کو مُشت زنی، ایک ہاتھ سے نکاح، ہتھ رسی کہتے ہیں اور یہ پاک لوگوں کے لئے مکروہ اور غیر اخلاقی ’’عمل ‘‘ ہے۔

*لڑکے اور لڑکی کی خواہش*

شریعت کے مطابق15سال تک لڑکاپہلی باراحتلام ہونے پراور12سال تک لڑکی حیض (ماہواری) ہونے پر ’’بالغ‘‘ ہو جاتے ہیں اور ان کا ’’نکاح‘‘ کیا جا سکتا ہے ۔بالغ ہونے کے بعد ہماری اولاد’’جسمانی خواہش ‘‘کی ضرورت محسوس کرتی ہے۔اگر ماحول گندہ ہو تو جلد اور اگر ماحول پاکیزہ ہو تو اس’’خواہش‘‘کی سمجھ جلد نہیں آتی۔ اس کے علاوہ کئی بیٹیوں کو لیکیوریا جیسے بعض مسائل پر ڈاکٹر کہتے ہیں کہ اس کا حل نکاح کے علاوہ کچھ نہیں ہے لیکن والدین معاشرتی مسائل کی وجہ سے جلد نکاح نہیں کر سکتے تو اس وقت لڑکی کو صبر کر کے اپنا ایمان بچانا چاہئے۔

*عورت اور مرد کے جنسی تعلقات* 

جب تمہارا نکاح کر دوں تو اُس کے بعد اپنی بیوی سے دن ہو یا رات، اُجالا ہو یا اندھیرا، جس وقت مرضی چاہو پیار کر سکتے ہو کیونکہ اس میں کوئی گناہ نہیں ہے البتہ تماری  نماز قضا نہ ہو۔تماری بی بی تمہارا لباس ہے اور تم اُس کا لباس ہو،  البتہ پیار کرنے سے پہلے نہا نا،خوشبو لگانا، دانت صاف کرنا تاکہ مُنہ سے بدبو نہ آئے ، یہ لڑکے اور لڑکی کے لئے بہتر ہے، اسلئے حدیث پاک کے مطابق صبح اُٹھ کر اپنی بیوی کا مُنہ نہیں چومنا چاہئے کیونکہ منہ سے بدبو آنے کی وجہ سے بیوی کو کراہت ہوتی ہے ، اسلئے چومنا، بوس و کنار وغیرہ کرنا اپنی بیوی کے ساتھ جائز ہے۔

 دین کے مطابق لڑکے اور لڑکی کا نکاح کر کے ایک دوسرے سے’’ جنسی لذت‘‘ اور’’جسمانی سکون‘‘لینا جائز ہے ۔ یہ دو جسموں کی لڑائی (exercise) ہے، اس لئے اس میں مرد کو اپنی اور اپنی عورت کی صحت کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ اگر دونوں میاں بیوی صحتمند ہوں تو شریعت کے مطابق آپس میں ’’جسمانی خواہش‘‘ روزانہ بھی پوری کر سکتے ہیں لیکن روزانہ پیار کرنے سے اگر میاں بیوی کی نماز، کام اور صحت میں فرق پڑ جائے تو پھر جنسی تعلقات میں کمی کرنی چاہئے۔

 جب تمہارا نکاح ہو جائے تو یاد رکھنا کہ عورت سے پیار بھری باتیں کرنا،حتی کہ ایک دوسرے کا کوئی بھی جسمانی کام کرنے میں کوئی شرم نہیں ہے۔ اس لئے کہ میاں بیوی کا رشتہ جسمانی خواہش پوری کرنے کا ہے، اسلئے کوئی بھی انداز ہو سکتا ہے۔

*اے میری بیٹی!*
 عورت کو چاہئے کہ اپنے شوہر کا خیال رکھے، اس لئے احادیث میں آیا ہے کہ بہترین عورت وہ ہے کہ مرد گھر آ ے تو عورت کی صُورت دیکھ کر اس کو سکون ملے اور عورت مرد کی جسمانی ضرورت پوری کرنے میں کبھی بھی ٹال مٹول سے کام نہ لے اور نہ ہی اُس کے پیار کرنے سے غلط فائدہ (emotional black mail) اُٹھائے۔

*گندی فلمیں دیکھنے والوں کو نصیحت*

 انٹر نیٹ پر سب سے زیادہ گندی اور ننگی ویب سائٹس ہے اپنے سفلی جذبات کی تسکین کیلئے جو  لڑکے اور لڑکیاں گندی فلمیں دیکھتے ہیں۔ فلمیں  اس میں جو کچھ دکھایا جا رہا ہے  جس انداز، طریقے، حالتوں  (positions) کواختیار کر کے ایک دوسرے سے پیار کرتے ہیں وہ کسی بھی مذہب کے مطابق جائز نہیں ہے۔
 عام گھریلوعورت اس انداز کو اختیار کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتی اورنہ ہی اپنی بیوی سے ایسی امید رکھنا ۔

پہلی بات: عورت کے ساتھ جس مرضی انداز(position) میں اگلی شرمگاہ یعنی بچہ پیدا ہونے والے مقام پر جماع کرنا جائز ہے لیکن عورت کی دُبر (پاخانے کے مقام) میں جماع کرنا حرام ہے۔ ایسا کرنے والے مرد اور خواہش کرنے والی عورت پر بھی لعنت ہے۔

دوسری بات: لڑکی کا لڑکی کو چُوم چاٹ کرجسمانی تسکین پہنچانا یا لڑکی کا خود کسی بھی کھلونے سے خودکو’’جنسی‘‘ تسکین دینا بھی اچھا عمل نہیں بلکہ نقصان دہ ہے۔

تیسری بات: لڑکے کا لڑکے کے ساتھ دُبر (پاخانے کے مقام) میں بد فعلی کرنا حرام ہے اور اس طرح عمل کرنے والوں پر لعنت ہے بلکہ شریعت میں سزا بھی مقرر کی گئی ہے۔

چوتھی بات:  آج کل گندی فلمیں دیکھنے سے نیا سوال پیدا ہواہے کہ کیا لڑکا لڑکی کی شرم گاہ کو چاٹ سکتا ہے اور لڑکی لڑکے کی شرم گاہ کو اپنے مُنہ میں ڈال کر لڑکے کو سکون پہنچا سکتی ہے۔ 

یہ اس دور میں گندی فلموں سے شروع ہوا ہے ،اس لئے قرآن و احادیث میں اس کے بارے میں کوئی واضح حُکم موجود نہیں ، اکثر مرد یہ چاہتے ہیں کہ عورت میرے ساتھ یہ کھیل کھیلے لیکن جب پوچھا جائے کہ کیا تم عورت کی اس طرح خواہش پورا کرنا پسند کرو گے تومرد کہتے ہیں ہرگزنہیں۔

 پیشاب، پاخانہ، مذی، منی وغیرہ اگرکپڑے پر لگ جائے تو کپڑا ناپاک ہو جاتا ہے، اسی طرح اگر منہ پر لگ جائے یا منہ کے اندر یہ پانی جائے تو اچھا نہیں ہے ۔البتہ میاں بیوی ایک دوسرے کے سارے جسم پر مساج کریں اور ایک دوسرے کی شرم گاہ پر ہاتھ پھیریں توکوئی گناہ نہیں۔

پانچویں بات. اگر عورت حالتِ حیض و نفاس میں ہو تو پھر اُس کے ساتھ صحبت نہیں کرنی بلکہ ناف سے لے کر گُھٹنوں تک کپڑا ڈال لینا ہے لیکن اس کے علاوہ عورت کے سارے جسم سے پیار کیا جا سکتا ہے۔ اگرحیض کی حالت میں پیار کرتے ہوئے کوئی نہ رہ سکتا ہو تو اپنی بیوی کے جسم کے کسی بھی حصے پر اپنے’’ عضو خاص‘‘ کو رگڑکر اپنی خواہش پوری کرلے تو اس میں کوئی گناہ نہیں۔

چھٹی بات: عورت کے چھاتی کے اُبھار( پستان) کو چومنا اور پیار کرنا جائز ہے لیکن اگر بیوی تمہارے بچے کی ماں بن گئی ہے اوراللہ کریم کے حُکم سے اُس کے پستان میں اُس کے بچے کے لئے دودھ اُتر آیا ہے اور پیار کرتے ہوئے دودھ تمہارے منہ کے اندر چلا جائے تو اس صورت میں تمہارے نکاح کو کوئی فرق نہیں پڑتااور نہ ہی عورت کو طلاق ہوتی ہے لیکن اس دودھ کو نہیں پینا کیونکہ وہ تمہارے لئے اللہ کریم نے اس کے پستانوں میں پیدا نہیں کیا بلکہ وہ اس کے بچے کا حق ہے۔

ساتویں بات: شریعت کے مطابق اگر عورت حاملہ ہو تو بچہ پیدا ہونے تک اُس کے ساتھ صحبت کرنا منع نہیں مگر یہ دھیان رہے کہ وہ تکلیف میں ہے، اس لئے صحبت کرنے کی ضرورت ہو تو اس کے پیٹ پر بوجھ نہ پڑے اور نہ ہی کوئی ایسا انداز اختیار کیا جائے جس سے اُس کی تکلیف زیادہ ہو۔ یہ کہنا بے وقوفی اور جہالت ہے کہ اگر اس عورت کے پیٹ میں بچی ہوئی تو یہ اُس کے ساتھ زنا ہو گا۔

آٹھویں بات : مرد اور عورت کا آپس میں جسمانی پیار کرنے کی باتیں کسی بھی دوست یا قریبی سے کرنا جائز نہیں۔اس لئے کوئی جنسی مسئلہ ہو تو کسی بھی سمجھدار سے مشورہ کرنا۔

نو ٹ... Copy paste 
یہ پوسٹ فس بک سے copy کی گئی ہے

Post a Comment

0 Comments