سہاگ رات



سہاگ رات

سہاگ رات (شبِ زفاف) زندگی کی سب سے پیاری، خوبصورت اور یادگار رات اس لئے ہوتی ہے کیونکہ ایک عورت اور مرد، میاں بیوی کی صورت میں ایکدوسرے کے ساتھ پہلی بار یکجا ہوتے ہیں اور اپنے مستقبل کی خوبصورت محل کی بنیاد رکھتے ہیں۔ لیکن دوسری طرف یہ رات جتنی بھی حسین، خوبصورت اور خوشیوں سے لبریز ہوتی ہے، کچھ حد تک  تکلف اور ججک والی رات بھی ہوتی ہے۔ اسلیئے کہ اس رات دو ناواقف لوگ بدنی اور جذباتی آزمائیش کے ساتھ ساتھ ایسے بے تکلفی سے یکجا ہوتے ہیں جیسے کافی عرصے سے ایک دوسرے سے واقف ہو اور امید رکھتے ہیں کہ اُن کی آئیندہ زندگی کامیاب اور راحت والی ہوگی۔

سہاگ رات کے بارے میں بہت سی کتابیں لکھی گئی ہیں جن میں جدا نظریات اور دلائل پیش کئے گئے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ میاں بیوی شرعی حدود میں رہتے ہوئے جس طرح چاہے یکجا ہو سکتے ہیں۔ یہ کام انکی اپنی مرضی سے جڑا ہوا ہے۔ اور اس میں کسی کو تنقید کرنے کی اسلیئے ضرورت نہیں ہے کیونکہ میاں بیوی کو چاہیئے کہ وہ اپنی مرضی، چاہت اور حالات کو مدنظر رکھیں۔
یہ بات یاد رکھنی چاہیئے کہ اگر ایک عورت ایسی حالت (مثلا حیض کی حالت میں) ہو جس میں جماع اُسے نقصان پہنچاتا ہو یا اسکے شوہر کا دل نہ چاہ رہا ہو تو چاہیئے کہ اس رات بھی جماع یا مباشرت سے دور رہے۔ اسلیئے کہ کامیاب اور بہترین مباشرت وہی ہے کہ جس میں دونوں لذت حاصل کریں اور دونوں کی رضا اور خوشی سے کامیابی سے انجام پائیں۔

سہاگ رات میں مرد کو چاہیئے کہ وہ مکمل بہادری اور بے تکلفی سے عمل کے میدان میں اترنے کیلئے پہل کریں اور اس رات کی ابتداء نماز سے کریں۔ اور بیوی کی ناواقیفیت اور اجنبیت کو دوستی اور واقفیت میں تبدیل کریں۔ چاہیئے کہ بیوی کے ساتھ اخلاق کے دائرہ میں گپ شپ، مزاح کرنا چاہیئے اور اس سے پیار و محبت کا اظہار کرنا چاہیئے۔

سہاگ رات عورت کیلئے اس لئے ایک آزمائیش کی حیثیت رکھتی ہے کیونکہ ایک تو اجنبیت کی وجہ سے اپنے شوہر کے سامنے ننگا ہونا اور بریہنہ ہونا اور دوسرا یہ کہ پردہ بکارت کا پھٹنا ہوتا ہے۔ اور پھر یہ کہ بعض لوگ کم علمی اور جہالت کی وجہ سے پردہ بکارت کی موجودگی کو عورت کی پاکدامنی سے تعبیر کرتے ہیں اور نہ ہونے کو بد چلنی اور بدکاری! لیکن اسلام، طب اور جدید سائنس اس بات کو غلط تصور کرتی ہے اور کہتی ہے کہ عورت کا پردہ بکارت مستی اور جوش کی زیادتی، چلانگ لگانے اور کنوارپن میں وقت کے زیادہ گزر جانے سے بھی پھٹتا ہے۔ اگر جماع کے وقت یہ پردہ نہ ہو تو آدمی کو چاہیئے کہ وہ پریشان نہ ہو اور اپنی جیون ساتھی پر بدچلنی اور بدکاری کا مہر نہ لگائے۔

ہر عورت اپنے بدن کے بعض حصوں کے ساتھ مرد کے ہاتھ پھیرنے اور چیڑ چاڑ سے (جیسے ران، ہونٹ، سینے، بٹک، گردن، بغل، ناف، گال وغیرہ) کے ساتھ ہاتھ پھیرنے کی وجہ سے لذت حاصل کرتی ہے اور جنسی ابھار پاتی ہے۔ جنسی طور پر جب عورت اچھی طرح جاگ جائے اور لذت کے عروج کو پہنج جائے تو درج زیل باتیں ظاہر ہونے لگتی ہیں
1۔ اس کے سینوں کے نپل کھڑی ہو جاتی ہیں
2۔ فرج(عورت کے آگے کی شرم گاہ) میں پانی آ جائے
3۔ آنکھوں میں سرخی آ جائے
4۔ فرج کے اندر کے چھوٹے ہونٹ پھول جائے
5۔ فرج کی وہ نالی جس میں مرد کی شرمگاہ داخل ہوتی ہے سخت اور تنگ ہو جاتی ہے۔
6۔ چاہتی ہے کہ اپنے شوہر کو گلے سے نزدیک لگائے
7۔ بعض اوقات عورت ایسی حرکتیں کرنے لگتی ہے جو اس سے پہلے برا مانتی تھی۔
8۔ سانس پھول جائے اور دل کی دھڑکن تیز ہو جائے۔

ایک عورت کے جنسی ابھار اور جگانے میں دس، بارہ منٹ لگتے ہیں۔ لیکن اگر درج بالا نشانیاں پائی جائے تو فورا مباشرت شروع کرنی چاہیئے یعنی جماع۔

لیکن اس شرط پر کہ عورت کو حیض نہ ہو (عورت کے ساتھ حیض کی حالت میں جماع حرام ہے)
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: 
"تم حیض کی حالت میں عورت کے ساتھ اس وقت تک جماع نہ کرو جب تک کہ پاک نہ ہو جائے"

تو اس سے معلوم ہوا کہ اس وقت ایک تو عورت ناپاک ہوتی ہے اور دوسرا یہ کہ عورت اس وقت جماع کی وجہ سے اندر سے زخمی ہو جاتی ہے، اس کی رگیں کمزور ہو جاتی ہیں، ہمیشہ کیلئے حیض کی بندش کا اندیشہ بھی پیدا ہو جاتا ہے، رحم کی سوزش اور دوسری بیماریوں کا سبب بھی بن سکتی ہے۔
اور ہو سکتا ہے کہ اس سے مرد کو خارش کی بیماری وغیرہ بھی پیدا ہو جائے۔ لہذا جماع سے اس وقت تک دور رہنا چاہیئے جب تک عورت کو خون آنا بند نہ ہو جائے، عورت غسل کر لے اور پاک ہو جائے۔
اس سے ایک تو اللہ کی رضا اور خوشی حاصل ہوگی اور دوسرا اس کے نتیجہ میں ایک محبت بھری اور لذت سے بھرپور جماع انجام پائے گا۔ تاکہ بیماریوں سے بھی بچ جائے اور صحبت بھی کامیاب ٹھہرے۔

Post a Comment

0 Comments