کیا بچوں کی موجودگی سے والدین کی ازدواجی زندگی متاثر ہوتی ہے؟

 کیا بچوں کی موجودگی سے والدین کی ازدواجی زندگی متاثر ہوتی ہے؟


بچوں کی تربیت


ہمارے معاشرے میں یہ رواج عام ہے کہ رات کو والدین بچوں کو اپنے ساتھ ہی سلاتے ہیں اور بچوں کی موجودگی کی وجہ سے والدین کی ازدواجی زندگی متاثر ہوتی ہے، کیونکہ کبھی حادثاتی طور پر بچے اپنے والدین کو نامناسب حالت میں دیکھ لیں تو اس صورت میں ان کیلئے بہت سے نفسیاتی مسائل جنم لے سکتے ہیں اور ان کے دل میں اس فعل کے سبب والدین کے خلاف نفرت جنم لے سکتی ہے ۔ اس لئے والدین کی خلوت، تنہائی اور ذاتیات کی اہمیت پر بہت زور دیا گیا ہے ۔


بہتر ہے کہ بہت چھوٹی عمر سے ہی بچوں کے کمرے والدین سے علیجدہ کر دینے چاہئے۔ ایک عام تصور ہے کہ بچوں کے والدین سے علیجدہ سونے  پر بچے عدم تحفظ کا شکار ہو جاتے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ والدین کیساتھ سونے پر بچے کے ذہن میں والدین کے آپس کے تعلقات کے بارے میں مختلف خیالات جنم لے سکتے ہیں جس کی وجہ سے وہ نفسیاتی مسائل کا شکار ہو سکتے ہیں۔ اس لئے بچوں کے کمرے والدین سے علیجدہ ہونے چاہئیں اور آغاز ہی سے بچوں کی تربہت اس طور پر کی جانی چاہئے  کہ انہیں اپنے والدین کی خلوت اور تنہائی کا خیال ہو۔


رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

’’اپنی اولاد کو نماز کا حکم دو جب وہ سات سال کے ہو جائیں اور جب وہ دس سال کے ہو جائیں تو انہیں (نماز چھوڑنے پر) مارو اور (دس سال کی عمر میں خواب گاہ میں ) ان کے بستر الگ الگ کر دو۔‘‘  (سنن ابی داود، حدیث: ۴۹۵)


یعنی دس سال کی عمر میں بچوں کے بستر والدین اور اپنے دیگر کمسن بھائیوں  اور بہنوں سے الگ کر دینے چاہئے۔ والدین اس بات کا خاص خیال رکھیں کہ بلوغت کے قریب بچے دن کے وقت بھی دوسرے بچوں کیساتھ ایک ہی چادر یا کمبل میں نا لیٹیں۔ 

سیدنا ابن معسود ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’مرد، مرد کیساتھ ایک کپڑے میں نا ہو اور عورت دوسری عورت کیساتھ ایک کپڑے میں نا ہو‘‘۔   (صحیح مسلم، حدیث: ۳۳۸)


اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

’’اے ایمان والو! تمہارے غلاموں اور لونڈیوں  اور ان (لڑکوں اور لڑکیوں) کو جو تم میں بلوغت کو نہ پہنچے ہوں ، چاہئے کہ تم سے تین بار اجازت مانگیں (پھر گھر میں داخل ہوں) ، نماز فجر سے پہلے اور جب تم دوپہر کو  کپڑے اتارتے ہو اور عشا کی نماز  کے بعد، یہ تین اوقات تمہارے لئے پردے کے ہیں۔ ان (اوقات) کے بعد (بلا اجازت آنے سے) نہ تم پر کچھ گناہ ہے  اور نہ ان پر۔ تم ایک دوسرے کے پاس کثرت سے آتے جاتے ہو اور اللہ اسی طرح تمہارے لئے (اپنی)آیات کھول کر بیان کرتا ہے اور اللہ خوب جاننے والا ، بڑی حکمت والا ہے۔ اور جب تم میں سے لڑکے (اور لڑکیاں) بلوغت کی حد کو پہنچ جائیں تو انہیں چاہئے کہ وہ بھی اسی طرح اجازت لیا کریں جیسا کہ ان سے پہلے (ان کے بڑے) اجازت لیتے رہے ہیں، اللہ اسی طرح تمہارے لئے اپنی آیات کھول کر بیان کرتا ہے  اور اللہ بڑا جاننے والا ، خوب حکمت والا ہے‘‘۔  (النور: ۲۴:۵۹،۵۸)


یعنی والدین اور اولاد کے درمیان بھی پردے کا حکم ہے اور بچوں کی تربیت اس طرز پر کرنی چاہئے کہ والدین کے آرام کے اوقات میں وہ اپنے کمروں میں رہیں اور والدین کی اجازت کے بغیر ان کے کمروں  میں داخل نا ہوں۔ 


ہمارے معاشرے میں اکثر مشترکہ خاندانی نظام پایا جاتا ہے جس کی وجہ سے عموماً  ایک خاندان کے حصے میں ایک کمرہ ہی آتا ہے ۔ ایسی صورت میں میاں بیوی کیلئے بہتر ہے کہ گھر کی کسی خفیہ گوشے یا سٹور وغیرہ کو ہمبستری کیلئے استعمال کیا جائے، تاہم اگر کسی وجہ سے اپنے کمرے میں ہی کرنے کا ارادہ ہو تو بہتر ہے کہ مکمل اندھیرا کر لیا جائے اور اوپر بڑی چادر اوڑھ لی جائے۔


To join telegram channel for more updates 


Post a Comment

0 Comments